حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ "آج اسلحے کی منتقلی، متعلقہ سرگرمیوں اور ایران کے لیے اور اس کی جانب سے مالی خدمات پر عائد پابندیاں خود بخود ختم ہو گئی ہیں۔"
2015 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدہ ہوا تھا، جس کی شرائط کے تحت اتوار 18 اکتوبر سے ایران کو اسلحے کی فروخت پرعائد پابندی بتدریج ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔
ایرانی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج سے ایران کسی قانونی پابندی کے بغیر اور صرف دفاعی ضروریات کی بنیاد پر کسی بھی ذریعے سے کوئی بھی ضروری اسلحہ اور متعلقہ سامان خرید سکتا ہے۔
بیان میں زور دیا گیا کہ ایران کے امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کی شرائط کے تحت طے پایا تھا کہ ہتھیاروں اور سفر پر پابندی خود بخود ختم ہو جائیں گی اور اس سلسلے میں مزید کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں ایران کے ساتھ کیے گئے ایٹمی معاہدے سے الگ ہو گئے تھے اور ایران پر یک طرفہ پابندیاں دوبارہ عائد کرنی شروع کر دی تھیں۔ واشنگٹن کو اگست میں اس وقت دھچکہ لگا جب وہ ایران پر غیرمعینہ مدت تک پابندیاں لگانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔